مہر خبررساں ایجنسی نے ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سٹریلوی پارلیمنٹ سے انسداد دہشت گردی کےقانون کی منظوری کے بعد انٹیلی جنس اداروں کو اضافی اختیارات دیدئے گئے ہیں۔
مخالفین کے مطابق اس قانون سے پریس کی آزادی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت کے مطابق تبدیلی کا مقصد قانونی خلا کو پرکرنے کے ساتھ عراق اور شام سے لوٹنے والے دہشت گردوں سمیت نئے واضح خطرات سے نبرد آزما ہونے کیلئےانٹیلی جنس اداروں کو سامان مہیا کرنا ہے۔ اٹارنی جنرل جارج برنڈیز نے ایوان نمائندگان میں ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ ہم اپنی آزادی اور عوام کے تحفظ کیلئے پرعزم ہیں۔ قانونی تبدیلی کے بعد آسٹریلوی سکیورٹی انٹیلی جنس آرگنائزیشن ( اے ایس آئی او) کا نمائندہ یا اسپیشل انٹیلی جنس آپریشن کسی کو بھی بنا کسی اجازت کے 10برس کیلئے جیل کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انٹیلی جنس آپریشن کے دوران جاسوس اہلکاروں کو اجازت ہوگی کہ تیسرے فریق کے کمپیوٹر سے معلومات حاصل کریں اور انہیں شہری ذمہ داریوں اور مجرم کیلئے محدود اختیار حاصل ہوگا۔دی مائنارٹیز آسٹریلین گرین نے بل کی مخالفت کی ہےجن کے مطابق تبدیلی سے مشکل سے حاصل کردہ پریس کی آزادی متاثر ہوگی ۔اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی نے سینیٹ سے پہلے ہی منظور شدہ تبدیلی کی حمایت کی ہے۔ پریس کی آزادی متاثر ہونے کے خوف پر جارج برنڈیز کا کہناتھاکہ اس طرز کا قانون ریاست اور وفاقی قانون برائے آسٹریلین فیڈرل پولیس آپریشن میں پہلے ہی موجود ہیں، ہم قانون بدل نہیں رہے بلکہ اسے اے ایس آئی او کے ذریعے عمل درآمد کرارہے ہیں، یہ قانون صحافت یا صحافیوں کیلئے نہیں، یہ عام قانون ہے، جس کا مقصد ہر اس چیز کو عام ہونے سے روکنا ہے، جسے عام نہیں ہونا چاہیے۔قانون سازی کے اس سلسلے کا آغاز آسٹریلیا میں دہشت گردی کے خطرات سے ہائی الرٹ کرنے پر ہوا تھا۔اگست میں ان خدشات میں اضافہ ہوا جب عراق و شام کی جنگ شام شہری واپس لوٹےجو آبائی ملک میں حملے کے قابل ہیں۔ خارجی لڑائی کا بل جو کہ پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کمیٹی کے پاس حال ہی میںنظر ثانی کیلئے گیا ہے ، اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس گروپ کیخلاف کارروائی کی جائے، جو بنا کسی وجہ کے دہشت گردی کا مرکز بننے والے ملکوں کا سفر کرتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ